وطنِ عشق
قسط 2 ( ٹکراؤ)
عرش پلیز چلو نہ یہ ہمارا یونی میں آخری ٹور ہے
رجا عرش کو منا رہی تھی۔
انکی یونیورسٹی ایک ہفتے کےلئے مری کے ٹور پر جا رہی تھی۔
دیکھو رجا میری جان! تمہیں پتا ہے کہ میں ماما پاپا کے بغیر کہیں نہیں جاتی عرش نے صاف منع کرتے ہوئے کہا۔
یار کیا تم انکل آنٹی کا روگ لگا کر بیٹھ جاتی ہو۔ رجا نے برا مانتے ہوئے ہوئے کہا۔
میں نہیں جا رہی ہوں تو نہیں جا رہی ہوں بس عرش نے دوٹوک لہجے میں کہا۔
تم چل رہی ہو تو چل رہی ہو بس رجا نے بھی اسی کے انداز میں کہا۔
یار رجا تم۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بس اور بحث نہیں تم جاکر پیکنگ کرو ہم کل جا رہے ہیں۔ رجا نے عرش کی بات کانٹے ہوئے کہا۔
اچھا بھئی ۔۔۔۔ عرش نے ہار مانتے ہوئے کہا۔
اووو یہ
ہوئی نہ بات سویٹ ہارٹ آئی لو یو
رجا نے اس کو گلے لگاتے ہوئے کہا۔۔
ان دونوں کی دوستی ایسی ہی تھی دونوں ایک دوسرے کے بغیر ادھوری تھی۔۔۔
دوستی میں دوریاں تو آتی رہتی ہیں"
پھر بھی دوستی دلوں کو ملا دیتی ہے
وہ دوستی ہی کیا جو ناراض نہ ہو
"پر سچی دوستی دوستوں کو منا لیتی ہے
______________ ________ ____________
آفیسر آپ کو پتا ہے کہ ہم آج تک آئی ایس آئی کی بہت سے مقدمات میں مدد کرتے آئے ہیں اس بار بھی انہیں ہماری ضرورت ہے انہیں ایک آدمی کی انفارمیشن چاہیے۔ تو میں چاہتا ہوں آپ اور کیپٹن معید مری جا کر اس کا پتہ لگائیں۔
جی بلکل سر جیسا آپ کہیں۔ میجر اعجاز اس وقت کرنل وہاج کے آفس میں بیٹھے ہوئے بات کر رہے تھے۔
اوکے آفیسر تو آپ اور کیپٹن معید آج رات ہی نکل جائیں کیونکہ وہ آدمی مری میں ہی ملے گا جتنی جلدی ہو سکے اس کی انفارمیشن ہمیں دیں۔۔
یس سر! وہ کرنل وہاج کو سیلوٹ کر کے باہر نکل گیا۔
____________ ____________ ________
عرش اٹھ جاؤ یار باہر سب ویٹ کر رہے ہیں۔ رجا نے عرش کو اٹھاتے ہوئے کہا جو بس سوئے جا رہی تھی۔
رجا کیا مصیبت ہے یار سونے دو۔ عرش نے کمبل منہ تک کرتے ہوئے کہا۔
فضول عورت اٹھ جاؤ اب فوراً کب سے سو رہی ہو نشہ کر کے سوئی ہو کیا۔ رجا نے غصے میں کہا۔۔
چلو بھی اٹھو اب اور پانچ منٹ میں تیار نظر آؤ۔ رجا نے عرش کو واش روم کی طرف دھکیلتے ہوئے کہا۔
اچھا نہ ڈریس تو لینے دو۔ عرش ڈریس لے کر تیار ہونے چلی گئی۔
چلیں۔؟؟؟؟؟ عرش تیار ہوکر رجا کے پاس آئی۔۔
اوووووو عرش تم کتنی پیاری لگ رہی ہو آج تو کتنے لڑکے مر ہی جائیں گے۔۔ رجا نے عرش کو دیکھتے ہوئے کہا جو اورنج فراک میں ہم رنگ دوپٹہ سلیقے سے اوڑھے ایک چھوٹی سی گڑیا لگ رہی تھی۔
ہاہاہاہاہاہاہا اچھا اپنی دو نمبر تعریف اپنے پاس رکھو عرش نے ہنستے ہوئے کہا۔
ہیں دو نمبر تعریف! اب میں کبھی تمہاری تعریف نہیں کرونگی رجا نے منہ مناتے ہوئے کہا۔۔
اچھا اس بات پر اب عمل بھی کرنا
عرش کی بات سنتے ہی رجا ایک ناراض سی نظر ڈال کر باہر کی طرف چلی گئی۔۔
اوئے پاگل روکو میں تو مزاق کر رہی تھی یار اچھا دیکھو میں سوری پھر بھی نہیں بولوں گی عرش نے پیچھے سے اس کے گلے میں ہاتھ ڈالتے ہوئے کہا۔
عرش کی بات سن کر رجا مسکرا دی۔۔
یہاں قدم قدم پر نئے فنکا ملتے ہیں"
"لیکن قسمت والوں کو سچے یار ملتے ہیں
_________ __________ __________
سر پکا وہ آدمی یہی آئے گا؟؟؟؟ معید نے اعجاز سے پوچھا۔
ہاں معید آنا تو اس آدمی کو یہی ہے۔
اچھا سر ابھی تک تو آیا نہیں ہم کب سے اس کا انتظار کر رہے ہیں معید یہ بول کر چپ ہوا ہی تھا کہ کہ اعجاز نے اس کی توجہ سامنے میز پر دلوائی جہاں وہ شخص آ کر بیٹھ چکا تھا۔
وہ دونوں اس لئے سامنے میز پر بیٹھے تھے تاکہ آسانی سے اس انسان کی کی ساری گفتگو سن سکے تھوڑی دیر بعد وہ دونوں جانے کے لئے اٹھ گئے کیونکہ ان کا کام ہو چکا تھا۔
_____________ _____________ ______
عرش اور رجا جیسے ہی شاپنگ مال میں داخل ہوئیں عرش کی بہت بری والی ٹکر ہوئی۔
ہائے میں مر گئی۔
عرش نے غصے سے اپنے سامنے دیکھا جہاں وہ اپنی وجیہہ شخصیت لیے کھڑا اسے ہی دیکھ رہا تھا۔
اندھے ہیں آپ دیکھ کر نہیں چل سکتے آنکھیں ہیں یا بٹن اگر ان کا استعمال نہیں آتا تو عطیہ کر دیجئے۔
اوکے سوری لیکن آپ کی بھی غلطی ہے۔ اعجاز نے کہا۔
واٹ میری غلطی دیکھ کر آپ۔۔۔۔۔۔۔۔ عرش بس کرو سب دیکھ رہے ہیں۔ رجا نے عرش کی بات کاٹتے ہوئے اس کو چپ کرایا۔ عرش دونوں پر ایک غصیلی نظر نظر ڈال کر آگے بڑھ گئی۔
سوری بھائی اس نے آپ کو اتنا سب کچھ سنا دیا۔ رجا نے اعجاز سے معافی مانگتے ہوئے کہا۔
ہاں تو اپنی دوست کو جا کر سمجھائیں جو فضول میں اتنا سب کچھ میرے سر کو سنا کر چلی گئیں۔ معید کا تو صدمے سے برا حال تھا کیونکہ وہ شخص جس نے آج تک کسی کی نہیں سنی تھی وہ اپنی غلطی نہ ہونے کے باوجود سوری بول رہا تھا وہ بھی ایک لڑکی کو۔۔
ہاں تو میں سوری بول رہی ہوں نہ آپ کو بیچ میں آنے کی ضرورت نہیں ہے پتا نہیں کہاں سے آجاتے ہیں پاگل لوگ۔رجا نے معید کو دیکھتے ہوئے کہا اور چلی گئی۔
سر اپنے کچھ کہا کیوں نہیں وہ لڑکی اتنا سنا کر گئی ہے اور مجھے بھی بولنے نہیں دیا۔ معید کا تو غصے سے برا حال تھا کیونکہ رجا اس کو سنا کر چلی گئی تھی۔۔
کیپٹن معید چپ چاپ چلے
یس سر! معید نے منہ مناتے ہوئے کہا۔
____________ _________________
ویسے عرش تمہیں اس لڑکے کو اتنا نہیں سننا چاہیے تھا غلطی تمہاری بھی تھی۔ وہ لوگ واپس آ گئ تھیں اور اب سونے کی تیاری کر رہی تھیں جب رجا نے کہا۔
اف رجا اب تم بٹن کی آنکھوں والا آدمی نامہ مت لے کر بیٹھ جانا۔ عرش نے بےزاری سے کہا۔
واٹ! بٹن کی آنکھیں۔۔؟؟؟؟؟ رجا نے حیران ہوتے ہوئے کہا۔۔
ہاں اس کے پاس آنکھیں نہیں بٹن ہیں تو اس لیے۔۔
اوگاڈ! عرش تمہارا کچھ نہیں ہو سکتا۔ رجا نے تاسف سے کہا اور سونے لیٹ کئی۔۔۔
____________ ____________ _________
اعجاز جب سے گھر آیا تھا اس واقعے کے بارے میں میں سوچے جا رہا تھا کہ آخر اس نے اس لڑکی کو کیوں بولنے دیا آخر کیوں اس کو کچھ سنایا نہیں۔ بار بار وہ لڑکی اس کے ذہن میں آئے جا رہی تھی
اف خدایا! اس سے پہلے میں پاگل ہو جاؤں میڈیسن کھا کر سو جاتا ہوں۔
اور پھر وہ سونے لیٹ گیا۔
کوئی رکا ہے میری چوکھٹ پر آکر"
"دستک ہوئی ہے دل کے دربار پر
_______________ _____________
To be continued 😇
Next episode will be upload on Saturday In Sha Allah
🔹 Comments if you like
🔹 Follow me on Instagram
@Arsh_writes11
⚡ I think you'd like this story: "وطنِ عشق" by Arsh_writes11 on Wattpad https://my.w.tt/xGe14xC3m7
Nice story 👌
ReplyDelete