قبولیت کی گھڑی
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم،قسط نمبر 1
اسلام علیکم،
کیسے ہیں سب میرے پیارے پیارے ریڈرز تو پھر آپ سب کے لیے آپ کی خوبصورت سی پیاری سی رائیٹر (کچھ زیادہ ہوگیا ہاہاہاہا) حاضر ہے ایک نئی کہانی کے ساتھ تو چلیں شروع کرتے ہیں پھر۔۔
********** *************
گھر میں ہر طرف شور تھا سب بھاگتے ہوئے چھت کی جانب جارہے تھے۔ مگر وہ مغرب کی نماز پڑھ کر دعا میں ہی گھوم تھی۔
"یا اللّٰہ! آپ تو سب کی سنتے ہیں پلیز میری بھی دعائیں سن لیں، مجھے اُن کے نصیب میں لکھ دیں میں اُن سے سچی محبت کرتی ہوں یا اللّٰہ یا اللّٰہ میری زندگی آسان کردیں میرے حق میں کوئی فیصلہ کر دیں۔"
وہ دعا مانگتے ہوئے روئے جارہی تھی اچانک آمنہ زور سے چلاتی ہوئی کمرے میں آئی۔
"مبارک ہو مبارک ہو رمضان کا چاند نظر آگیا۔"
اُس نے شور سنتے ہی دعا آمین کے ساتھ ختم کی اور اپنے آنسو صاف کرتے ہوئے جائے نماز لپیٹ کر رکھنے لگی۔
نیک خیالات کی مالک اور نہایت ہی سادگی پسند رکھنے والی اس لڑکی کا بہت ہی عمدہ مزاج تھا۔ دیکھنے میں بہت معصوم اور خوبصورت، یسر'ی بلکل اپنے نام کی طرح پاکیزہ تھی۔
"آپی آپ رورہی تھیں؟
کیا ہوا ہے آپی کچھ تو بولیں۔"
آمنہ نے یسر'ی کو آنسو صاف کرتے ہوئے دیکھ لیا تھا وہ اب سوال پہ سوال کیے جارہی تھی۔
تبھی رخسار بیگم کی آواز آئی
"یسر'ی بیٹا نماز پڑھ لی تو بھابی کے ساتھ کچن میں ہاتھ بنٹاؤ اور آمنہ تم ادھر آؤ ذرا ارسلان کو دیکھو۔"
رخسار صاحبہ دونوں لڑکیوں کو کام بتاتے ہوئے خود بازار کی طرف چل دیں۔ آخر رمضان المبارک کے لیے کچھ چیزیں بھی تو لانی تھیں۔۔۔۔
"جی امی جی آتی ہوں۔"
یہ بول کر یسر'ی کچن کی جانب بڑھی۔
"آپی آپ نے بتایا نہیں آپ کیوں رو رہی تھیں؟"
آمنہ یسر'ی کے پیچھے پیچھے چل رہی تھی۔
"آمنہ تم نے سنا نہیں امی نے بولا ہے نا کہ ارسلان کو دیکھو جاؤ اب یہاں سے۔"
یسر'ی نے غصّے سے کہا تو آمنہ وہاں سے منھ بنا کر چلی گئی۔
عامر صاحب اور رخسار بیگم کے تین بچے تھے۔ سب سے بڑا بیٹا ارشد جو اپنے باپ کا چھوٹا سا بزنس سنبھال رہا تھا اس کی شادی عامر صاحب کے دوست کی بیٹی زینب سے ہوئی تھی اور اب ان دونوں کا ایک بیٹا ارسلان ہے۔ یسر'ی عامر صاحب کی بڑی بیٹی جو ابھی انٹر کر رہی اور چھوٹی بیٹی آمنہ جو نویں جماعت میں ہے۔
دو سال قبل عامر صاحب کی ایک ایکسیڈنٹ میں موت ہوگئی تھی جس کے بعد سے ارشد نے گھر سنبھالا اور دونوں بہنوں کو کبھی باپ کی کمی محسوس نہیں ہونے دی وہ دونوں بہنوں سے بہت محبت کرتا تھا۔۔۔۔۔
************ **********
سحری کا وقت تھا زینب کچن کے کاموں میں مصروف تھی۔ رخسار بیگم اپنی بیٹیوں کو اُٹھانے کے لئے کمرے میں گئیں تو یسر'ی پہلے ہی اٹھ چکی تھی اور اب نمازِ تہجّد پڑھ رہی تھی وہ یہ دیکھ کر بہت خوش ہوئیں اور اُن کے دل سے دعا نکلی۔
"یا اللّٰہ میری دونوں بیٹیوں کے نصیب بھی ان کی طرح بہترین کرنا۔" (آمین)
پھر وہ آمنہ کو اٹھانے لگیں۔
"دیکھو اپنی بہن کی طرح نماز پڑھا کرو، سوتی رہتی ہو۔"
"کیا ہے امی سونے دیں!"
آمنہ نے منہ بناتے ہوئے کہا۔
"اُٹھو سحری ہورہی ہے بھابی اکیلے کام کر رہی ہیں اُن کی مدد کرو۔ یسر'ی تم بھی آجانا بیٹا۔"
یہ بولتی ہوئی وہ کچن میں چلی گئیں۔
************** **********
یسر'ی نے جلدی جلدی سے میز پر سامان لگایا اور سب سحری سے فارغ ہو کر جانے لگے۔
یسر'ی نے سارا کام سمیٹ کر وضو کر کے نمازِ فجر ادا کی اور پھر قرآنِ پاک کی تلاوت کرنے لگی۔
قرآنِ پاک کھولتے ہی اس کی نظر ایک کاغذ کے ٹکرے پر پڑی جہاں اُس کی ہی رائیٹنگ میں ایک قرآنی آیت لکھی تھی۔
"اِنَّ مَعَ الٌعُسٌرِ يُسٌرًا°"
اُس کی زبان نے یہ لفظ دہرائے اور دل سے آواز نکلی۔
"بے شک مشکل کے ساتھ آسانی ہے۔"
وہ لمبا سانس لے کر تلاوت مکمل کر کے سونے کے لئے لیٹ جاتی ہے اور پُر سکون نیند کے ساتھ سوجاتی ہے۔
************* **********
"اُٹھو بیٹا! اُٹھو بھی یاد ہے نا آج لڑکی والوں کے گھر جانا ہے جلدی سے تیار ہوجاؤ۔"
"موم! کیا میرا جانا ضروری ہے؟
لڑکی تو طاہر بھائی کے لئے دیکھنی ہے نا!"
وہ کروٹ بدل کر دوبارہ سونے لگا۔۔۔۔
"بیٹا اتنے سارے کام ہوتے ہیں ریاض بھائی اکیلے کریں گے کیا، تم ان کی مدد کرنا۔"
"خالو اکیلے کیوں کریں گے… علی ہوگا ان کے ساتھ۔"
"علی کے اوپر ویسے ہی بزنس کا کام ہے وہ بچہ کتنا تھک جاتا ہوگا۔ اچھا بس اب اور باتیں نہیں سنی مجھے اٹھ کر تیار ہوجاؤ چار بجے تک نکلنا ہے۔" وہ اس کا کچھ بولنے کے لیے منہ کھولتا دیکھ کر فوراً سے اپنا حکم سناتے ہوئے ریما بیگم کمرے سے باہر چلی گئیں۔
زریاب کو نہ چاہتے ہوئے بھی اٹھنا پڑا۔ گھڑی کی طرف دیکھا تو دو بج رہے تھے۔
ظہر کی اذان کب کی ہو چکی تھی پر یہاں فکر کس کو تھی۔۔۔۔
********** **********
وہ بکھرے بالوں سے نیچے کی طرف جانے لگا ور بیچ لاؤنچ میں کھڑا زور زور سے اپنی امی کو بولا رہا تھا۔
"موم! موم! کہاں چلے گئے سب؟"
وہ پریشانی سے ادھر اُدھر دیکھنے لگا۔
"کیا ہوا چھوٹے صاحب؟"
نصرین نے زریاب کو پریشان دیکھ کر سوال کیا۔
"نصرین آپا موم اور ڈیڈ کہاں ہیں؟ ابھی تو موم مجھے اٹھانے آئی تھیں؟"
زریاب نے پوچھا۔
"بڑے صاحب اور بیگم صاحبہ باہر گئے ہیں کہہ رہے تھے تھوڑی دیر تک آجائینگے۔"
"اچھا آپ میری چیک والی شرٹ پریس کردیں میں آتا ہوں فریش ہو کر۔"
زریاب نصرين کو بولتے ہوئے اوپر چلا گیا۔
زریاب ولید صاحب اور ریما بیگم کا اکلوتا بیٹا ہے۔ ولید صاحب ایک بہت بڑے بزنس مین ہیں۔ اور ان لوگوں کا شمار رائل فمیلز میں ہوتا ہے۔ نصرین زریاب کے بچپن سے اس گھر میں اُسکی دیکھ بھال کے لئے رہتی تھیں۔
زریاب ایک لاپرواہ قسم کا لڑکا ہے جس کے لیے پیسے کوئی معنی نہیں رکھتا اور وہ ہر چیز پر پانی کی طرح پیسہ بہتا رہتا ہے۔ جس کی ولید کو ہر وقت ٹینشن رہتی کہ آخر کب انکا بیٹا اپنی لائف میں سیریس ہوگا۔
×———×———×
جاری ہے۔۔۔۔
تو کیسی لگی پہلی قسط کمنٹ میں زور بتائیں۔۔۔
دعاؤں میں یاد رکھیں گا ملتے ہیں بہت جلد ایک نئی قسط کے ساتھ تب تک کے لیے آپ سب اپنا خیال رکھیں اللّٰہ حافظ۔۔۔۔
آپکی رائیٹر عریشہ اشرف
Follow me on Instagram
@arsh_writes11
Bht hi allaw thi amazing next epi kb aegi
ReplyDeleteSeriously but hi ajeeb tho kxh bhi khaas nhi that but I am waiting episode *2* jldi din prr usme kxh khaas likhiyega
ReplyDeleteBht thii tha dn
DeleteWow waiting for next 😍
ReplyDeleteAcha start liya hai areesha keep it up😘😘
ReplyDeleteWow nice novel
ReplyDeleteGd work ap to bht acha likhti ha bhaee
ReplyDelete