Latest Urdu Novels 2020 | Watan-e-Ishq Episode 4


وطنِ عشق
قسط نمبر 4
 ( احساس و فکر ) 

ان لوگوں پر آج اچانک ہی حملہ ہوا تھا جس میں ان لوگوں نے بھرپور انداز میں مقابلہ کیا تھا ۔۔۔ پر اس مقابلے میں ان کا ایک ساتھی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا تھا۔۔۔۔۔۔ اعجاز کے بھی گولی بازو کو چھو کر گزری تھی اور اب وہ اپنی امی (بشری بیگم) سے ڈانٹ سن رہا تھا۔۔۔
امی یار آپ کو پتہ ہے کہ یہ ہماری جاب کا حصہ ہے پھر بھی آپ ایسے ری ایکٹ کر رہی ہیں جیسے میں نے جان بوجھ کر گولی کھائی ہو ۔۔۔۔۔۔ آپ کو یہ بات بتائی کس نے یقیناً معید کا کام ہوگا اس کو تو میں چھوڑوں گا نہیں اب ۔۔۔۔۔۔ اعجاز ایک دم سے غصہ ہوا ۔۔۔
خبردار جو میرے بیٹے کو کچھ کہا تو میں بات نہیں کرونگی تم سے ۔۔ بشری بیگم نے فوراً معید کا دفاع کیا۔۔۔۔ (معید اپنے گھر میں اکیلا تھا اس کے والدین ایک کار ایکسیڈنٹ میں انتقال کرگئے تھے۔۔۔)
اوہو ہاں بھئ ہم تو پرائے ہیں آپ ہم سے کیوں بات کریں گی۔۔۔۔ اعجاز نے مصنوعی ناراضگی سے کہا ۔۔۔۔ کیونکہ وہ معید کے لیے بشری بیگم کا پیار اچھے سے جانتا تھا۔۔۔۔
خیر یہ سب چھوڑو اور چھٹیاں لے کر گھر آؤ تاکہ آرام کر سکو۔۔ بشری بیگم نے حکم دیا۔۔۔۔
ہیں ہیں کیوں بھئی صرف ایک گولی لگی ہے بلکہ چھو کر گزری ہے اور آپ تو ایسے پریشان ہو رہی ہیں جسے میں اب مرنے والا ہوں۔۔۔۔۔۔ اعجاز نے ہنستے ہوئے کہا۔۔
اللہ نہ کرے بےشرم کیسے منہ پھاڑ کر اپنے مرنے کی بات کر رہے ہو۔۔۔ جانتے بھی ہو تمہیں کچھ ہو ایسا سوچتے ہوئے بھی میرا دل بند ہونے لگتا ہے۔۔۔۔ بشری بیگم روہانسی ہو رہی تھی۔۔۔۔
میری پیاری امی کیا ہوگیا ہے آپ کو آپ تو اتنی کم ہمت نہیں ہے آپ ایک بہادر آفیسر (شہید) کی بیوی اور ایک آفیسر کی بہادر ماں ہیں۔۔۔ اعجاز نے انہیں سمجھاتے ہوئے کہا۔۔۔
بیٹا میں بہت کمزور ہوگئی ہوں مجھ میں تمہارے ابو کو کھونے کے بعد اور کسی کو کھونے کی ساکت نہیں ہے۔۔۔۔ ان کا لہجا کسی ہارے ہوئے جواری کی طرح لگ رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان کی بات سننے کے بعد وہ تھوڑی دیر خاموش ہوگیا تھا کیونکہ وہ جانتا تھا اسکی امی پہلے جیسی نہیں ہے اب وہ ہر چھوٹی چھوٹی بات پر پریشان ہونے لگتی تھیں۔۔۔
وہ انہیں تسلی کے دو بول بھی نہیں بول پارہا تھا۔۔۔۔۔۔ وہ جانتا تھا کہ دن رات وہ اپنی جان ہتھیلی پر لے کر گھومتا ہے اگر آج بچ گیا تو ضروری نہیں کہ روز وہ بچے ۔۔۔۔۔۔۔
اچھا امی میں بعد میں بات کرتا ہوں ابھی معید کے ساتھ شہید کے گھر جاکر افسوس کرنا ہے۔۔ اس نے جلدی سے فون بند کیا ۔۔۔۔۔

"ہے قسم مجھے اس مٹی کی
میں دیس نہیں مٹنے دوں گا
دے دوں گا جان اپنی
پرچم نہیں جھکنے دوں گا"۔ 
___________ ____________ __________

یونی کے ٹور سے واپس آئے آج انہیں دو دن ہوگئے تھے۔۔۔اور عرش نے بنا بتاۓ یونی کی چھٹی کر لی تھی جس کی وجہ سے رجا کا موڈ کافی خراب تھا۔۔ اس نے یونیورسٹی کے بعد عرش کے گھر جاکر اس کی خبر لینے کا ارادہ کرلیا تھا۔۔۔ رجا بھی اپنے گھر کی اکلوتی تھی۔۔۔ دونوں بچپن سے ساتھ تھیں۔۔ ان کا ایک دوسرے کے گھر آنا جانا لگا رہتا تھا۔۔۔

_______________ _______________ 

اسلام علیکم! کیا ہوا امی آپ کچھ پریشان لگ رہی ہیں۔۔۔۔۔ شیری جو کالج سے آ کر فریش ہونے کے بعد کیچن میں کھانا کھانے آیا تو بشری بیگم کو کسی سوچ میں بیٹھا دیکھ کر پوچھے بنا نہ رہے سکا۔۔۔۔۔
ہاں۔۔۔ وعلیکم اسلام تم کب آئے ۔۔۔ وہ ہوش کی دنیا میں آتے ہوئے بولی۔۔۔
بس ابھی تھوڑی دیر پہلے آپ نظر نہیں آئی تو ڈائریکٹ فریش ہونے چلا گیا۔۔۔ شیری کرسی پر بیٹھتے ہوئے بولا۔۔۔۔
اچھا چلو تم بیٹھو میں کھانا لگاتی ہوں ۔۔ بشری بیگم کھانا لگانے کے لیے اٹھ کھڑی ہوئی۔۔۔
جی امی کھانا تو کھا لے گئیں آپ بتائیں کیوں اتنی پریشان ہیں۔۔۔۔
ہممممم۔۔۔۔ کچھ نہیں بیٹا بس آج کے مقابلے میں تمہارے بھائی کے گولی لگی ہیں۔۔۔۔ لیک۔۔۔۔۔
اس سے آگے وہ کچھ بولتی شیری بول اٹھا
کیا۔۔۔؟؟ کب۔۔؟؟ کیسے۔۔؟؟ اور کہاں لگی ہے۔۔؟؟؟ ٹھیک تو ہیں نہ بھائی کچھ ہوا تو نہیں۔۔۔۔؟؟؟ اس نے پریشانی میں ایک ساتھ اتنے سوال کر ڈالے ۔۔
نہیں نہیں اللّٰہ کا شکر ہے بس چھو کر گزری ہے ۔۔انہوں نے فوراً شیری کی نفی کرتے ہوئے کہا۔۔
ہنہہہہ۔۔۔ تھینک گاڈ !! امی اپنے تو ڈرا ہی دیا۔۔۔۔
تم خود ہی بیچ میں بولنا شروع ہوگئے تھے۔۔ اچھا چلو جلدی کھانا کھاؤ اور شام تک سارے کام کرلینا آج رشیدہ بوا کی بیٹی کی شادی میں جانا ہے۔۔۔ (رشیدہ بوا ان کے گھر میں کام کرنے والی ایک پرانی ملازمہ تھیں)..
امی یار میں نہیں جا سکتا کل میرا ٹیسٹ ہے۔۔۔
ہمممم ۔۔۔۔۔ بیٹا دل تو میرا بھی نہیں لیکن بوا کتنے پیار سے دعوت دے کر گئی تھی ۔۔ نہیں جائے گے تو ہارٹ ہو جائیگی۔۔ بشری بیگم شیری کو سمجھاتے ہوئے بولی۔۔۔
اچھا ٹھیک ہے۔۔۔ آخرکار شیری ہامی بھرتے ہوئے بولا۔
_________________ _________ _________

اسلام علیکم انکل! رجا جو عرش کی خبر لینے اس کے گھر آئی تھی لاؤنچ میں وزیر صاحب کو بیٹھے دیکھا ان کو سلام کیا۔۔۔
وعلیکم اسلام! واہ بھئی آج تو بڑے بڑے لوگ ہمارے گھر کا راستہ بھولے ہیں۔۔۔۔۔ وزیر صاحب نے رجا کے سر پر ہاتھ رکھا ۔۔۔۔
انکل میں تو پھر بھی آج راستہ بھول گئی لیکن آپ دونوں کو تو میری یاد ہی نہیں آتی۔۔۔ اور آپ کی وہ صاحبزادی آج کہاں مصروف ہیں جو یونی آنا گوارہ نہیں کیا۔۔۔۔۔ رجا نے منہ بناتے ہوئے کہا۔۔۔۔
ہاں جاؤ خود ہی دیکھ لو اپنے کمرے میں غم بنا رہی ہیں میڈم۔۔۔۔۔ نصرت بیگم کیچن سے نکالتے ہوئے بولی۔۔۔
ہیں کیسا غم ۔۔۔۔۔۔؟؟؟؟ رجا حیران ہوئی 
ارے نہیں بیٹا تمہاری آنٹی ایسے ہی بول رہی ہیں ۔۔۔۔۔ اس کے سر میں درد ہے تم جا کر ملو۔۔۔ وزیر صاحب ہنستے ہوئے بولے۔۔۔
ہاں جاؤ اور ہمیں رات میں شادی میں جانا ہے تو اسکو منانے کا کام تمہارا ہے اور جلدی آنا میں کھانا لگا رہی ہوں۔۔۔۔۔ بشری بیگم رجا سے کہتی ہوئی  کیچن کی طرف چلی گئی۔۔۔۔۔
جو حکم ملکہ عالیہ ۔۔۔۔ وہ کہتے ہوئے عرش کے کمرے کی طرف بھاگی۔۔۔۔۔۔۔
پیچھے وہ دونوں اس کی شرارت پر مسکرا دیے۔۔۔۔۔۔
____________ __________ ___________

دھڑم۔۔۔۔۔۔ زوردار آواز سے دروازہ کھولا اور وہ اندر داخل ہوئی۔۔۔
استغفرُللہ!!!!!.... ایسا لگ رہا ہے جیسے یہاں ماتم ہو رہا ہو توبہ توبہ ۔۔۔۔ وہ بولتے ہوئے کھڑکی کے پردے ہٹانے کے لیے آگے بڑھی۔۔۔۔۔۔
اس نے آنکھوں پر سے تھوڑا سا ہاتھ ہٹایا دروازے کی طرف دیکھا اور واپس رکھ لیا۔۔۔۔ وہ جانتی تھی اتنے بدتمیزوں کی طرح اس کے کمرے میں صرف وہی آ سکتی ہے۔۔۔۔۔
عرش میں جانتی ہوں تم سو نہیں رہی ہو۔۔ اس لیے فوراً اٹھ جاؤ اور نیچے کھانا کھانے چلو۔۔۔۔۔وہ چلتی ہوئی اس کے پاس آئی آنکھوں پر سے ہاتھ ہٹایا تو حیران رہ گئی۔۔۔۔۔ اتنی لال آنکھیں۔۔۔۔۔۔۔۔
عرش کیا ہوا واقعی سر میں بہت درد ہو رہا ہے کیا۔۔۔۔چلو ڈاکٹر کے پاس جلتے ہیں۔۔۔ رجا ایک دم پریشان ہوگئی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔
نہیں یار میں ٹھیک ہوں۔۔۔۔۔وہ اٹھتے ہوئے بولی۔۔۔
تو یہ آنکھیں اتنی لال کیوں ہو رہی ہے۔۔۔۔۔؟؟؟؟؟
 تم نے صبح کی نیوز نہیں دیکھی۔۔۔؟؟؟ اس نے رجا کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔
نہیں کیوں کیا ہوا۔۔۔۔؟؟؟ 
واٹ تمہیں خبر ہی نہیں کیا ہوا ہے۔۔۔؟ عرش تھوڑی دیر خاموش ہونے کے بعد بولی۔۔۔ 
جب تم سکون کی نیند سو رہی ہوتی ہو۔۔۔۔۔وہی کچھ لوگ اپنی نیندیں حرام کرکے ہماری حفاظت کرتے ہیں۔۔۔۔۔
تم جو اتنی گرمی میں اے سی کے اندر بیٹھ کر سکون فرما رہی ہوتی ہو۔۔۔۔۔۔ وہی کچھ لوگ اس سورج کی آگ کے آگے اپنا خون پسینہ بہا کر ہماری حفاظت کرتے ہیں۔۔۔۔۔
 تم جو اتنی سردی میں کمبل میں گھس کر فلمیں دیکھ رہی ہوتی ہو۔۔۔۔۔وہی کچھ لوگ اس سردی میں اپنا خون جما کر ہماری حفاظت کرتے ہیں۔۔۔۔۔
تم جو آج اپنوں کے ساتھ اتنی اچھی زندگی گزار رہی ہو۔۔۔۔۔۔ وہی کچھ لوگ اپنے اپنوں کو بھلا کر ہماری حفاظت کر رہے ہیں۔۔۔۔
بتاؤ کون ہے یہ لوگ ہمارے وطن کے محافظ۔۔۔۔۔ آج ان محافظوں میں سے ایک شہید ہوگیا اور تم کہہ رہی ہو کیا ہوا۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟؟ 
ہم اپنے ملک کی حفاظت نہیں کرسکتے لیکن کم سے کم اپنے ملک کی حفاظت کرنے والوں کی خبر تو رکھ سکتے ہیں۔۔۔۔
عرش تو جیسے پھٹ پڑی تھی۔۔۔
اچھا تو آج یونی نہیں آنے اور صبح سے رو رو کر اپنی آنکھیں لال کرنے کی وجہ یہ ہے ۔۔۔۔۔ رجا نے دل ہی دل میں منہ بنایا۔۔۔۔۔
تو یہ کوئی اتنی چھوٹی بات نہیں ہے۔۔ عرش ناراض ہوتے ہوئے بولی۔۔۔۔
رجا نے آنکھیں بند کرکے ایک لمبا سانس لینے کے بعد بولنا شروع کیا۔۔
عرش لیکن یہ کوئی اتنی بڑی بات بھی نہیں ہے۔۔۔
دیکھو مرنا تو ایک دن سب کو ہی ہے۔۔۔ زندگی کا بھروسہ کسی کا بھی نہیں ہے۔۔۔ ہم ایسے ہی مر جاتے ہیں۔۔۔اور وہ لوگ ایک گولی کھا کر مرتے ہیں۔۔۔ مارتے کیا بلکہ شہید ہوتے ہیں۔۔۔۔ شہید تو ہمیشہ زندہ رہتے ہیں۔ وہ لوگ اس دنیا میں ہیرو ہوتے ہی ہوتے ہیں اور اس جہاں میں جا کر بھی ہیرو بن جاتے ہیں۔۔۔۔۔ اور ایک بات تو تم مجھ سے زیادہ بہتر جانتی ہو کہ جب وہ لوگ آرمی جوائن کرتے ہیں تو ان کی سب سے اولین خواہش یہی ہوتی ہے کہ وہ لوگ شہید ہوجائیں۔۔۔۔ اپنے ملک کا قرض ادا کریں۔۔۔۔ اور تم ان کی خواہش پوری ہونے پر اتنا رو رہی ہو ۔۔بہت غلط بات ہے۔۔۔ اگر کوئی تمہاری خواہش پوری ہونے پر ایسے روئے گا تو تمہیں اچھا لگے گا۔۔۔۔ نہیں نہ۔۔۔ تو پھر تم کیوں اتنا رو رہی ہو ہو۔۔۔ چلو شاباش اٹھو اور فریش ہو کر آؤ ہم کھانا کھانے نیچے جا رہے ہیں۔۔۔۔۔ 
رجا نے اس کو کھڑا کرتے ہوئے کہا۔۔۔۔
وہ بھی رجا کی بات سمجھ کر کر فریش ہونے جانے لگی۔۔۔۔
ایک منٹ رکو۔۔۔۔ ایک وعدہ کرو پہلے آج تمہیں انکل کے دوست کی بیٹی کی شادی میں جانا ہے اور تم نیچے جا کر منع نہیں کرو گی۔۔۔۔
رجا نے اس کے آگے ہاتھ ہلاتے ہوئے کہا۔۔
اوکے وعدہ۔۔۔ عرش اس کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر فریش ہونے چلی گئی۔۔۔
 ______________ _____________ _____

To be continued 😇
Next epi will be upload on Tomorrow In ShaAllah
🔹Cmnt if you like
🔹Follow me on Instagram
@arsh_writes11

Comments

Post a Comment