Latest Urdu Novels 2020 | Watan-e-Ishq Episode 5


وطنِ عشق
قسط 5
 (خوشیاں)

اسلام علیکم! کیسی ہو۔۔؟؟ آج ہفتہ تھا یونیورسٹی کی چھٹی تھی اور وزیر صاحب اور نصرت بیگم کی شادی کی سالگرہ تھی۔۔۔۔۔ جس کی وجہ سے عرش صبح دس بجے ہی رجا کو فون کرکے بیٹھ گئی تھی۔۔۔۔
وعلیکم اسلام ٹھیک ہوں۔۔۔۔ تم سناؤ سب خیریت جو صبح صبح فون کر رہی ہو۔۔۔۔؟؟؟ اسپیکر سے رجا کی سوئی سوئی آواز آئی۔۔۔
واٹ دس بج رہے ہیں اور تم کہہ رہی ہو صبح صبح فون کیوں کرلیا۔۔۔ پانچ منٹ میں تم مجھے یہاں نظر آؤ مارکیٹ جانا ہے۔۔۔ عرش نے حکم دیا ۔۔۔۔
تو بھئی چھٹی والے دن تو بارہ بجے ہی صبح ہوتی ہے۔۔ خیر تم بتاؤ مارکیٹ کیوں جانا ہے جان...؟؟؟ 
اووو گاڈ!! رجا تم بھول گئی آج ماما پاپا کی اینیورسری ہے گفٹ لینے جانا ہے۔۔۔ عرش نے حیرت سے کہا۔۔
اوہو یار واقعی مجھے یاد نہیں رہا۔۔ میں بس پانچ منٹ میں آئی۔۔ رجا نے کہتے ہی فون بند کیا۔۔۔۔
__________________ ____________

رجا واقعی میں پانچ منٹ بعد عرش کے گھر کے باہر گھڑی اس کو آنے کا میسج کر رہی تھی۔۔۔
امی میں جا رہی ہوں رجا کے گھر اور شام تک واپس آؤنگی۔۔ عرش یہ کہتے ہی باہر کی طرف بھاگی۔۔۔
ارے ارے لڑکی جا کس کے ساتھ رہی ہو۔۔۔۔نصرت بیگم جو لاؤنچ کی صفائی کر رہی تھی اس کی بات سنتے ہوئے بولی۔۔۔
رجا لینے آئی ہے امی۔۔۔ عرش نے گیٹ سے باہر نکالتے ہوئے زور دار آواز میں کہا۔۔۔
افففف!!! ان دونوں لڑکیوں کے کام ان کی طرح ہی انوکھے ہیں۔۔ نصرت بیگم نے آہستہ سے بڑبڑایا....

ہاں تو بھئی بتاؤ کیا پلین ہے۔۔عرش سے گاڑی میں بیٹھتے ہی رجا نے پوچھا۔۔۔۔
ہممممم۔۔۔ تو ابھی ہم مارکیٹ جائیں گے وہاں سے تمہارے گھر پھر شام میں کیک وغیرہ لے کر ماما پاپا کو سرپرائز دیں گے۔۔۔ عرش آج الگ ہی خوش نظر آ رہی تھی۔
اوکے گفٹ کیا لینا ہے۔۔۔؟؟؟
بس کسی فوٹو فریم کی شاپ پر چلو یہ فوٹو بڑی کرکے فریم میں لگائے گے۔۔۔ عرش نے تصویر رجا کے سامنے کی۔۔۔ اس تصویر میں رجا اور عرش ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑے بیچ میں کھڑی تھیں ایک سائڈ پر وزیر صاحب اور دوسری سائڈ پر نصرت بیگم کھڑی تھیں ۔۔۔۔ چاروں مسکرا رہے تھے۔۔۔
واؤ یار بہت اچھی تصویر ہے اففففف!! اب بس شام کا انتظار ہے۔۔ رجا نے پرجوش انداز میں کہا۔۔۔۔
_______________ ______________

شیری تمہیں وہ لڑکی یاد ہے ماشاءاللہ سے کتنی پیاری تھی ہنس مک اور باتونی۔۔۔۔
آج چھٹی کا دن تھا تو شیری اور بشریٰ بیگم لیٹ ناشتہ کر رہے تھے جب نصرت بیگم شیری سے مخاطب ہوئی۔۔۔۔۔
کون سی امی۔۔۔ شیری کو بالکل سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ اس کی امی کس کی بات کر رہی ہیں۔۔۔
ارے بیٹا وہی جو رشیدہ بوا کی بیٹی کی شادی میں ملی تھی۔۔ نصرت بیگم اس کو یاد دلاتے ہوئے بولی۔۔۔
اچھا وہ پنک کپڑوں والی۔۔ جی یاد ہے کیا ہوا اس کو۔۔۔۔ شیری نے یاد آتے ہی کہا۔۔۔
نہیں ہوا تو کچھ نہیں بس وہ مجھے اچھی لگی ہے تمیز دار اور سلیقے مند۔۔۔ سوچ رہی ہوں اعجاز کے لیے مانگ لوں اسے۔۔۔۔ بشری بیگم کے لہجے میں عرش کے لیے پیار ہی پیار تھا۔۔۔
اففف!!! خدا کا خوف کریں امی بھائی کہاں اور وہ لڑکی کیا نام تھا۔۔۔ ؟؟ ہاں عرش ۔۔۔ وہ کہاں۔۔۔۔ بیچاری کی زندگی خراب ہو جائے گی۔۔۔ بھائی بہت کھڑوس ہیں۔۔۔ 
آہہہہہہ۔۔۔۔۔ابھی شیری اور اپنے بھائی کی تعریف کے پھول باندھا اس کو اپنی گردن پر دباؤ محسوس ہوا۔۔۔ اس نے موڑ کر دیکھا تو بیچارے کی حالت دیکھنے والی تھی۔۔۔۔ کیونکہ پیچھے کوئی اور نہیں اس کا اپنا بھائی اعجاز احمد اس کی گردن پکڑے کھڑا تھا ۔۔۔۔۔
ارے میرے بھائی چپ کیوں ہوگئے کرو نہ میری تعریف۔۔۔ اعجاز نے اس کی گردن پر اور دباؤ ڈالا۔۔۔۔
ارے میرا بچہ آگیا۔۔۔ بشری بیگم کرسی سے اٹھ کر اعجاز تک آئی۔۔ 
اور اس وقت بشری بیگم شیری کے لیے فرشتہ ثابت ہوئی اس نے اپنی گردن بچ جانے پر شکرادا کیا۔۔ کیونکہ اب ان ماں بیٹے کی باتیں ختم نہیں ہونے والی تھی۔۔۔۔
اسلام علیکم امی!!!! کیسی ہے آپ۔۔۔؟؟ وہ انکو گلے لگاتے ہوئے بولا۔۔
وعلیکم اسلام میری جان!!! میں ٹھیک ہوں تم بتاؤ ہاتھ کیسا ہے۔۔اور معید کہاں ہے وہ نہیں آیا۔۔۔؟؟ بشری بیگم نے اس کو کرسی پر بیٹھایا۔۔۔۔
ہاتھ تو فوراً ہی ٹھیک ہوگیا تھا۔۔ اور معید اپنے گھر گیا ہے شام تک آئے گا یہاں۔۔۔ اب وہ پانی کا گلاس بھر رہا تھا۔۔۔۔
اچھا چلو ٹھیک۔۔۔شیری جاؤ مجھے سودا لا کر دو میرا بچہ آیا ہے اب اس کی پسند کے کھانے بناؤں گی۔۔۔ وہ اعجاز کی بات سن کر اس کو جواب دے کر شیری سے مخاطب ہوئی۔۔۔
یار امی مجھے دوستوں کے ساتھ کھیلنے جانا ہے۔۔ وہ منہ بناتے ہوئے بولا۔۔۔
لا دو میرے بچے بھائی اتنے مہینوں بعد گھر آیا ہے۔۔۔بشری بیگم نے پیار بھری نظروں سے اعجاز کو دیکھتے ہوئے شیری کو جواب دیا۔۔۔۔
اچھا بھئی ایک تو بھائی کے آتے ہی میں نوکر بن جاتا ہوں۔۔۔ وہ منہ بنا کر کچن سے باہر چلا گیا۔۔۔۔
_______________ _______________

رجا جلدی گاڑی چلاؤ شام ہوگئی پاپا بھی گھر آ گئے ہوں گے۔۔۔۔۔ ان دونوں نے ساری تیاری کرلی تھی اور اب عرش کے گھر کی طرف روانہ تھی عرش سے بلکل صبر نہیں ہو رہا تھا اس لئے وہ بار بار رجا کو جلدی گاڑی چلانے کا بول رہی تھی ۔۔۔۔۔۔
ہاں بس دو منٹ اور۔۔۔۔ رجا کی پوری توجہ گاڑی ڈرائیو کرنے پر تھی۔۔۔۔۔
ہمممممم۔۔۔۔۔ عرش نے صرف سر ہلانے پر اکتفا کیا۔۔۔۔
لو آگئی ہماری منزل۔۔ رجا نے خوشی سے کہا۔۔۔
اور دونوں جلدی سے اتر کر گھر کے اندر بھاگیں۔۔۔۔
اسلام علیکم!!! دونوں نے ایک ساتھ سلام کیا۔۔۔۔
وعلیکم اسلام!!! کہاں تھیں بھئی آپ لوگ۔۔۔وزیر صاحب بولے۔۔۔
بتائیں گے بتائیں گے سب بتائیں گے۔۔ ماما کہاں ہیں ماما کو تو بلائیں۔۔۔۔ عرش کو تو بہت جلدی تھی۔۔۔
ہاں کمرے میں ہے آجائیگی۔۔۔۔ وزیر صاحب بولے۔۔۔
آنٹی آنٹی!!!!!! وزیر صاحب کے بتاتے ہی رجا نصرت بیگم کو آوازیں دینے لگی۔۔۔۔۔
آ رہی ہوں بھئی کیا ہوگیا۔۔؟ نصرت بیگم بولتے ہوئے کمرے سے نکلی۔۔۔
تم چیزیں نکالو میں برتن لے کر ائی۔۔۔ نصرت بیگم کے آتے ہی عرش رجا کو بول کر کچن کی طرف بھاگی۔۔۔۔
ارے بھئی کیا کر رہی ہو دونوں کچھ بتاؤ تو۔۔
بس آنٹی تھوڑا سا صبر۔۔۔ نصرت بیگم کے پوچھتے ہی رجا نے کہا۔۔۔
ہیپی اینیورسری۔۔۔۔ عرش کچن سے برتن لے کر رجا کے پاس آئی تھی اور دونوں نے ایک ساتھ زوردار آواز میں وش کرکے ان کو گفٹ دیا۔۔۔۔۔
ارے آج ہماری شادی کی سالگرہ تھی مجھے تو بالکل یاد نہیں تھا بہت شکریہ میری بچیوں۔۔۔۔ اور گفٹ بہت ہی شاندار ہے۔۔۔ وزیر صاحب نے دونوں کے سر پہ ہاتھ رکھتے ہوئے بولے۔۔۔۔
مجھے بھی یاد نہیں تھا بہت بہت شکریہ۔۔۔ نصرت بیگم نے دونوں کو گلے لگایا۔۔۔۔
دیکھا ہمیں پتا تھا آپ دونوں کو یاد نہیں ہوگا۔۔۔ تبھی سرپرائز دیا۔۔۔ عرش نے کہا۔۔
اور اس طرح خوشی کے ماحول میں چاروں نے مل کر کیک کاٹا۔۔۔
_______________ _________________

معید ہے یہ۔۔۔ معید میرا بچہ آگیا۔۔۔۔
وہ سب لاؤنچ میں بیٹھے ہوئے تھے جب معید دبے پاؤں گھر میں داخل ہوا اور پیچھے سے بشریٰ بیگم کی آنکھوں پر ہاتھ رکھا۔۔۔۔
یار آنٹی آپ نے کیسے فوراً پہچان لیا۔۔۔۔ معید انکے گلے میں باہیں ڈالتے ہوئے بولا۔۔۔۔
بیٹا ماں ہوں میں تمہاری۔۔۔ ایک ماں اپنے بیٹے کا لمس فوراً محسوس کر لیتی ہے۔۔۔ انہوں نے اسکے منہ پر ہاتھ پھیرا۔۔۔
اوووو آنٹی آئی لو یو۔۔۔۔ بس جلدی سے کھانے کے لئے کچھ دیں بہت بھوک لگی ہے۔۔۔ معید نے پیٹ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔۔۔۔
اچھا ہوا تم آگئے۔۔۔۔ مجھے تم لوگوں سے کچھ بات بھی کرنی ہے۔۔۔۔ بات کرلیں پھر کھانا لگاتی ہوں۔۔۔۔۔ انہوں نے معید کو اپنے ساتھ صوفے پر بٹھایا۔۔
بشری بیگم کے کہتے ہی سب ان کی طرف متوجہ ہوئے۔۔۔۔
میں نے اعجاز کے لیے ایک لڑکی پسند کی ہے۔۔۔۔
انہوں نے سب کو اپنی طرف دیکھتے پاکر بات شروع کی۔۔۔۔
کیا ۔۔۔؟؟؟ سب سے پہلے حیرت میں ڈوبا سوال اعجاز کی طرف سے آیا۔۔۔
ارے واہ کون ہے وہ لڑکی۔۔۔؟؟؟ معید نے خوشی میں کہا۔۔۔
شیری کی طرف سے کوئی سوال نہیں آیا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ امی کس لڑکی کے بارے میں بات کر رہی ہیں۔۔۔۔۔
ہاں دکھاتی ہوں تصویر۔۔۔۔ انہوں نے موبائل لینے کے لیے شیری کو کمرے میں بھیجا۔۔۔۔
شیری نے موبائل لا کر بشریٰ بیگم کو دیا۔۔ 
انہوں نے تصویر نکال کر موبائل آگے بڑھایا ہی تھا کہ معید نے فوراً سے پہلے آگے بڑھ کر لیا۔۔۔
ہیںںںںںںںںںں۔۔۔۔۔۔۔ ارے یہ لڑکی آنٹی بہت اچھی چوائس ہے آپ کی۔۔۔۔۔۔ فوراً سے شادی کردیں۔۔۔
کیونکہ آگر سر کسی کے سامنے خاموش کھڑے ہو کر بنا اپنی غلطی کے کچھ بھی سن سکتے ہیں تو بس دنیا میں ایک یہی انسان ہے۔۔۔۔ معید نے ہنستے ہوئے کہا۔۔۔۔۔
اعجاز نے معید کی بات سنتے ہی حیرت سے اس کی طرف دیکھا۔۔۔ اور چھیننے کے انداز میں موبائل لیا ۔
موبائل پر نظر پڑتے ہی وہ منجمد ہوگیا۔۔۔۔
یہ چہرہ۔۔۔۔۔ اس چہرے نے ہی تو اس کو بے چین کر رکھا تھا۔۔۔ اس واقعہ کے بعد سے ایک منٹ کے لئے بھی تو وہ اس کو بھول نہیں پایا تھا۔۔۔۔تھک گیا تھا وہ اپنے آپ سے لڑتے لڑتے اپنے جذبات سے لڑتے لڑتے۔۔۔۔ پر آخر کار وہ مان گیا تھا کہ ہاں ہو گئی ہے اس کو محبت۔۔۔۔ ہو گیا وہ بھی عام لوگوں میں شامل۔۔۔ ہار گیا ہے وہ ایک لڑکی کے سامنے۔۔۔۔
ایک دم سے اس کو خوشگوار جذبات نے گھیرلیا۔۔۔
کہ جو لڑکی اس کو پہلی نظر میں پسند آئی وہی لڑکی اس کی امی کو بھی پسند آئی۔۔۔۔ دل ہی دل میں اس نے اللّٰہ اور اپنی امی کا شکر ادا کیا۔۔۔
شیری دیکھو کیسے تصویر دیکھ کر مسکرایا جا رہا ہے ------ معید نے شیری کی توجہ اعجاز کی طرف دلوئ۔۔۔۔
اعجاز کے کانوں میں معید کی آواز پڑی تو اس نے فوراً سے اپنے تاثرات سنجیدہ کر لیے اور موبائل بشری بیگم کو دے کر بولا ۔۔۔۔ آپ دیکھ لیں جو آپ کو صحیح لگے ۔۔۔۔
بشریٰ بیگم اس کا جواب سن کر خوش ہو گئی تھی ۔۔۔
ہمیں دکھانے کے لئے بول رہے ہیں کہ ہاں دیکھ لیں۔۔۔اور دل میں لڈو پھوٹ رہے ہونگے ۔۔۔
معید نے ہنستے ہوئے کہا۔۔۔
ہاں مجھے بھی دال میں کچھ کالا لگ رہا ہے۔۔۔۔ آپ بتائیں آپ کو یہ لڑکی کہاں ملی ۔۔۔۔ شیری نے معید سے پوچھا ۔۔۔ معید نے مال والا سارا واقعہ انکو بتایا۔۔۔
واقعہ سننے کے بعد شیری اور معید اعجاز کو چھیڑنے لگے۔۔۔
بشریٰ بیگم نے اپنے تینوں بچوں کو ہنستا دیکھ کر ان کی خوشی کی دعا مانگی
__________ _________________

آج دونوں گھرانے بہت خوش تھے۔۔۔۔۔۔ لیکن دور کھڑی قسمت ان کی خوشی پر افسوس سے مسکرانے لگی۔۔۔۔ شاید اس نے ان کے نصیب میں کچھ اور لکھا ہوا تھا۔۔۔۔۔۔
                   ____________________

To be continued 😇

   Next Episode will be uplaod tomorrow
  🔹 Comment if uh like 
🔹Follow me on instagram @Arshwrites11 
👇Share plzz

Comments

  1. kia baat h ab 6 bhi dedo yrr plz fast

    ReplyDelete
    Replies
    1. In Sha ALLAH May be it will upload Tomorrow
      We'll try our best 💯

      Delete

Post a Comment