وطنِ عشق
قسط نمبر 6
(ڈیٹ فکسنگ)
عرش اٹھ جاؤ بارہ بج گئے ہیں۔۔۔۔۔ میں اب دوبارہ نہیں آؤنگی اٹھانے۔۔۔۔۔ نصرت بیگم چوتھی بار اس کو اٹھانے آ چکی تھی۔۔۔۔
کل ان لوگوں کو سیلیبریشن کی وجہ سے سونے میں دیر ہو گئی تھی اور آج اتوار تھا اس لیے عرش دیر تک سو رہی تھی۔۔۔
عرش نے ان کی بات سننے کے بعد آنکھیں کھول کر گھڑی کی طرف دیکھا تو واقعی بارہ بج رہے تھے۔۔۔۔ وہ اچھالنے کے انداز میں اٹھی اور باتھ روم کی طرف فریش ہونے چلی گئی۔۔۔۔۔۔
کیا ہوا امی آج کوئی آرہا ہے کیا اور پاپا کہاں ہیں۔۔۔؟؟؟وہ فریش ہو کر لاؤنچ میں آئی تو نصرت بیگم کو ضرورت سے زیادہ کاموں میں بزی دیکھا۔۔۔
تمہارے پاپا سودا لینے گئے ہیں۔ اور ہاں آج کچھ لوگ آ رہے ہیں تمہیں دیکھنے۔۔۔ ان کا بیٹا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا امی آپ کو پتا ہے مجھے ابھی شادی نہیں کرنی پھر بھی آپ لوگوں کو بلا رہی ہیں۔۔۔ نصرت بیگم کی بات ابھی پوری نہیں ہوئی تھے کہ وہ چلا اٹھی۔۔۔۔۔
بشریٰ بیگم سے صبر نہیں ہو رہا تھا اس لئے انہوں نے صبح ہوتے ہی کال کر کے اپنی آمد کا بتایا تھا۔۔۔۔تبھی نصرت بیگم گھر کی صفائیاں کر رہی تھی۔۔۔۔
زیادہ اتراو نہیں۔۔۔ پہلے میری پوری بات سن لو پھر کچھ بولنا۔۔ ان کا بیٹا آرمی میں ہے۔۔ ماشاءاللہ سے میجر کی پوسٹ پر ہے۔۔۔
لیکن تمہیں تو شادی نہیں کرنی ہے نہ۔۔۔ میں منع کر دیتی ہوں۔۔۔۔۔۔ نصرت بیگم نے اپنی ہنسی ضبط کی۔۔۔
نہیں اب میں نے ایسا بھی نہیں کہا کہ شادی ہی نہیں کرنی۔۔۔ آپ دیکھائے تو لڑکا کیسا ہے۔۔۔ کہاں رہتا ہے۔۔۔ کیا نام ہے۔۔۔ اب ایک نہ ایک دن تو شادی کرنی ہے نہ تو ابھی کیوں نہیں۔۔۔
وہ اپنے آپ کو دل ہی دل میں صلاواتیں سنا رہی تھی کہ کیا ضرورت تھی بیچ میں بولنے کی اب اگر ماما نے اصلی میں منع کردیا تو آرمی کا بندہ گیا ہاتھ سے۔۔۔۔۔
دیکھاتی ہوں روکو۔۔۔انہوں نے تصویر نکال کر اس کو دی اور کچن کی طرف چلی گئی۔۔۔۔۔
آاااااااااااا۔۔۔۔۔۔۔ نصرت بیگم جو ابھی کچن میں گئی تھی عرش کی چیخ سن کر واپس آئیں۔۔۔۔
کیا ہوا۔۔۔؟؟؟؟
امی یہ بٹن کی آنکھوں والا۔۔۔۔ عرش نے ایسے کہا جیسے اس کو صدمہ لگ کیا ہو۔۔
ہیں بٹن کی آنکھیں۔۔؟؟ ان کے پوچھنے پر عرش نے مری والا سارا قصہ ان کو سنا ڈالا۔۔۔۔
آئے ہائے!!!!! بے غیرت کتنا کہتی ہوں میں کہ اپنی زبان کو اپنے قابو میں رکھا کرو۔۔۔۔ لیکن نہیں تمہیں تو لوگوں کو دکھانا ہے نہ کہ تمہارے پاس اتنی لمبی زبان ہے۔۔۔ نصرت بیگم نے قصہ سنتے ہی عرش کو ڈانٹنا شروع کیا۔۔۔۔
امی تو اس میں میری غلطی نہیں تھی۔۔۔ وہی دیکھ کر نہیں چل رہے تھے۔۔۔۔۔ عرش روہانسی ہو گئی تھی۔۔۔
ہاں بھئی ہاں آپ تو دودھ کی دھولی ہیں۔۔۔ نصرت بیگم نے آج عرش کی طبیعت صاف کرنے کی ٹھان لی تھی۔۔۔۔
ارے بھئی کیوں میری بیٹی کو ڈانٹ رہی ہو۔۔۔۔۔وزیر صاحب نے گھر میں داخل ہوتے ہوئے نصرت بیگم کی آخری بات سن لی تھی۔۔۔۔۔
ان کے پوچھنے پر عرش نے ان کو سب بتایا۔۔۔
بیگم صاحبہ غلطی تو بھئی اعجاز کی ہی تھی وہ ٹکرایا کیوں ہماری بیٹی سے۔۔۔ انہوں نے ہنستے ہوئے کہا۔۔۔۔
اووووو۔۔۔۔۔پاپا سو سویٹ آئی لو یو۔۔۔ یو آر دا بیسٹ پاپا ان دا ورلڈ۔۔۔۔۔۔ عرش نے وزیر صاحب کے گلے لگتے ہوئے کہا۔۔۔
نصرت بیگم وزیر صاحب کی بات سن کر بغیر جواب دیے کچن میں ناشتہ بنانے چلی گئی۔۔۔ کیونکہ وہ جانتی تھی ان باپ بیٹی سے بحث کرنا فضول ہے۔۔۔۔
اچھا میں رجا کو بتا کر آتی ہوں۔۔۔ عرش صوفے پر سے اٹھتے ہوئے بولی۔۔۔
ناشتہ تو کر لو پہلے میں دوبارہ گرم کرکے نہیں دوں گی ۔۔۔۔ نصرت بیگم نے کچن سے آواز لگائ۔۔۔
امی آپ کو پتا ہے جب تک میں رجا کو ساری باتیں نہ بتا دوں میرا کھانا ہضم نہیں ہوتا ۔۔۔ یہ کہتے ہی عرش کمرے کی طرف بھاگی۔۔۔۔۔۔۔
_____________ ________________
السلام علیکم!!! اعجاز ناشتہ کرنے کے لیے کچن میں داخل ہوا تو سب کو سلام کیا ۔۔۔
وعلیکم السلام!!! شیری اور بشریٰ بیگم نے ایک ساتھ جواب دیا ۔۔
امی دیکھیں آج بھائی کے چہرے پہ الگ ہی خوشی نظر آ رہی ہے ۔۔۔۔ شیری پھر سے چھیڑنا شروع ہو گیا تھا۔۔۔۔
تمہارے بھائ کا تو پتا نہیں لیکن میں بہت خوش ہوں۔۔۔ کیونکہ اب اس گھر میں بھی خوشیاں آئے گی اللہ اس گھر کی خوشیوں کو دوبارہ سے آباد کرے ۔۔۔
آمین ۔۔۔۔۔ شیری اور اعجاز نے ایک ساتھ بشری بیگم کی دعا پر آمین کہا ۔۔۔۔۔
________________ ____________
ہیلو ۔۔۔۔عرش نے رجا کو فون کیا۔۔۔۔
اففففف عرش کیا تم نے میری ہفتہ اتوار کی صبح خراب کرنے کا ٹھیکہ لے رکھا ہے۔۔۔ رجا نے جھنجھلا کر کہا۔۔۔۔
رجا اگر مجھے ایک ضروری بات نہیں بتانی ہوتی تو میں اس کا بہت اچھا جواب دیتی۔۔۔ عرش نے غصے سے کہا ۔۔۔
اچھا بتاؤ یار۔۔۔۔ رجا یہ کہتے ہی پھر سے سونے لگی۔۔۔
رجاااااااا۔۔۔۔۔۔۔ عرش ذور سے چلائی۔۔۔۔
ہا۔۔ ہاں۔۔۔ رجا ایک دم ہوش میں آئی۔۔۔
اگر تم دوبارہ سوئی نہ تو میں تمہارا گلہ دبا دوں گی۔۔۔۔۔؟؟؟ عرش نے اس کو دھمکی دیتے ہوئے کہا۔۔۔۔
اچھا یار بولو کیا بات ہے۔۔۔۔۔ رجا کو غصہ آ رہا تھا ایک تو اس کی نیند خراب کی پھر اوپر سے اس کو دھمکی دے رہی ہے۔۔۔۔
ہاں تو سنو۔۔۔ وہ بٹن کی آنکھوں والا آدمی تھا نہ۔۔۔ وہ آرمی میں میجر کی پوسٹ پر ہے۔۔۔ اور آج اس کی امی میرا رشتہ لے کر گھر آ رہی ہیں۔۔۔ عرش نے ایک ہی سانس میں سب کچھ کہہ دیا۔۔۔
کیا۔۔۔ ویٹ ویٹ ویٹ۔۔۔!! سارے بم ابھی پھوڑو گی کیا۔۔۔۔؟؟؟؟اس کے تو چودہ طبق روشن ہوگئے تھے وہ فوراً اٹھ بیٹھی۔۔۔۔
رجا بی سیریس۔۔۔۔ مجھے تو ڈر لگ رہا ہے کہ کہیں وہ مجھ سے بدلہ لینے کے لیے ایسا نہ کر رہے ہوں۔۔۔ عرش کو ایک دم سے یہ خیال آیا تھا۔۔۔
فورگوٹ سیک عرش۔۔۔ بچوں جیسی باتیں نہیں کرو۔۔ ہر کوئی تمہاری طرح پاگل نہیں ہوتا یار۔۔۔ رجا کو عرش کی سوچ پر بہت افسوس ہوا۔۔۔
اچھا خیر یہ چھوڑو تم بس گھر آجاؤ۔۔۔
ہاں میں بس تھوڑی دیر میں آتی ہوں۔۔۔ اللہ حافظ۔۔۔ رجا نے بات ختم کرتے ہی فون بند کیا۔۔۔
________________ _____________
شیری۔۔۔ آنٹی۔۔۔ جلدی چلے دیر ہو رہی ہے۔۔۔ شام کے چار بج رہے تھے جب معید احمد ہاؤس میں داخل ہوتا آوازیں دینے لگا۔۔۔۔
بس آگئے معید بھائی۔۔۔ بشریٰ بیگم اور شیری سیڑھیوں سے اتر رہے تھے جب شیری نے کہا۔۔۔۔
معید بیٹا یہ سامان گاڑی میں رکھواؤ ۔۔۔بشری بیگم نے ٹیبل پر رکھے میٹھائی کے ٹوکروں کی طرف اشارہ کیا۔۔۔۔۔
جی آنٹی۔۔۔۔وہ کہتا باہر نکل گیا۔۔۔۔
وہ تینوں عرش کے گھر جا رہے تھے------بشری بیگم نے اعجاز کو اپنے ساتھ لے جانے سے منع کردیا تھا اس لیے وہ اپنے کمرے میں منہ بنا کر بیٹھا ہوا تھا۔۔۔۔
______________ _____________
تھوڑی ہی دیر بعد وہ لوگ اپنی منزل پر پہنچ گئے تھے----
دروازہ کھولنے وزیر صاحب آئے تھے------شیری اور معید ان سے گلے ملے۔۔۔ باقی بشری بیگم ان کو سلام کر کے اندر داخل ہوئی۔۔۔۔
السلام علیکم کیسی ہیں آپ۔۔۔ بشری بیگم نے لاؤنچ میں داخل ہوتے ہوئے نصرت بیگم کو گلے لگایا------
عرش کہاں ہے نظر نہیں آ رہی۔۔۔ وہ سب صوفوں پر بیٹھ چکے تھے۔۔۔ تب بشری بیگم نے نصرت بیگم سے پوچھا۔۔۔۔۔
جی بس آ رہی ہے ۔۔۔ رجا عرش کو جلدی لے کر آؤ۔۔۔ انہوں نے جواب دینے کے بعد رجا کو آواز لگائی۔۔۔۔۔
جی بس آئے۔۔۔ رجا جواب دے کر عرش کی طرف متوجہ ہوئی۔۔۔
اووووو عرش اتنی پیاری لگ رہی ہو۔۔ اگر اعجاز بھائی بھی آتے نہ تو آج ہی رخصتی بھی کروا لیتے۔۔اس نے عرش کے گلے میں باہیں ڈالی۔۔۔۔
رجا بدتمیزی نہیں کرو۔۔۔ عرش نے شرماتے ہوئے کہا۔۔۔
اوووو میڈم کو شرم آ رہی ہے۔۔۔ یار میں رجا ہوں اعجاز بھائی نہیں۔۔۔ رجا نے ہنستے ہوئے کہا۔۔۔۔
رجا پلیز ۔۔۔۔۔ عرش نے منہ بنایا۔۔
اچھا بابا نہیں کر رہی چلو باہر چلیں۔۔۔ وہ اس کو لے کر باہر چلی گئی۔۔۔۔
_____________ ____________
بھائی صاحب آپ کو پتا ہے کہ ہم کیوں آئے ہیں۔۔۔ بس آپ جلدی سے شادی کی تاریخ دے دیں۔۔۔۔ بشری بیگم دو چار باتیں کرنے کے بعد اصل مدعے پر آئیں۔۔۔
شادی۔۔۔؟؟ وزیر صاحب نے نا سمجھی سے نصرت بیگم کی طرف دیکھا انہوں نے بھی نا سمجھی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کندھے اچکادیے۔۔۔۔۔
بہن دیکھیں ابھی تو ہم شادی کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔۔ اور عرش بھی ابھی پڑھ رہی ہے ہاں ابھی منگنی وغیرہ کر سکتے ہیں۔۔۔۔۔ وزیر صاحب بولے۔۔۔۔
بھائی منگنی نہیں نکاح کرلیتے ہیں ابھی۔۔ شادی کی فکر آپ نہیں کریں وہ سب ہم دیکھ لیں گے۔۔ ہمیں جہیز بھی نہیں چاہیے۔۔ بس آپ اپنی بیٹی ہمیں دے دیں ۔۔۔ بشری بیگم نے عرش کو اپنے برابر بیٹھاتے ہوئے کہا جو ابھی لاؤنچ میں داخل ہوئی تھی۔۔۔۔۔۔
بہن جی یہ تو آپ کا بڑا پن ہے۔۔۔۔ وزیر صاحب انکی اپنائیت پر دل سے متاثر ہوئے تھے۔۔۔۔۔
ہاں تو بھائی پھر اس جمعہ نکاح رکھ لیتے ہیں۔۔ اور عرش کی پڑھائی کے بعد شادی کر دیں گے۔۔۔ بشری بیگم نے عرش کے سر پر ہاتھ رکھا۔۔۔
جی بہن جیسا آپ کہے۔۔۔۔ رجا بیٹا سب کا منہ میٹھا کراؤ۔۔۔۔ وزیر صاحب نے بات پکی ہونے پر رجا سے کہا۔۔۔۔
وہ لوگ تھوڑی دیر اور بیٹھ کر باتیں وغیرہ کرکے اپنے گھر کی طرف روانہ ہوگئے۔۔۔۔
اس جمعے نکاح اور پھر دو مہینے بعد شادی طے پائی۔۔۔ کیونکہ عرش کی پڑھائی دو مہینے بعد ختم ہونے والی ہے۔۔۔۔۔
________________ _______________
جب سے بشری بیگم لوگ گئے تھے۔۔۔ وزیر صاحب خاموش خاموش سے ہوگئے تھے۔۔۔ صحیح سے رات کا کھانا بھی نہیں کھایا اور اب چائے کے لیے بھی منع کر دیا تھا۔۔۔۔ یہ بات عرش نے نوٹ کی تھی اس لیے وہ ان سے وجہ پوچھنے چلی آئی۔۔۔۔
پاپا کیا ہوا آپ اتنے چپ کیوں ہوگئے۔۔۔ عرش انکے برابر بیٹھتے ہوئے بولی۔۔۔
کچھ نہیں بیٹا بس تمہاری شادی کا سوچ کر۔۔۔۔۔۔
ارے پاپا اگر آپ اس وجہ سے پریشان ہیں تو مجھے ابھی کوئی شادی نہیں کرنی بعد میں کرلیں گے۔۔۔ وہ ان کی بات کانٹتے ہوئے بولی۔۔۔۔۔
اففففف۔۔۔۔۔۔ میرے بچے میری بات تو سنو۔۔ میں یہ سوچ رہا ہوں کہ تم اتنی بڑی کب ہوئی۔۔۔ کل ہی کی بات لگتی ہے جب تم چھوٹی سی ان ہاتھوں میں آئ تھی انہوں نے اپنے ہاتھوں کو دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔۔
ڈاکٹر نے جب تمہارے پیدا ہونے کی خبر دی تو اس وقت میں نے اللہ کا بہت شکر ادا کیا۔۔۔۔ مجھے ایسا لگ رہا تھا میں دنیا کا سب سے خوش نصیب بندہ ہوں کیونکہ مجھے بیٹیاں شروع سے ہی بہت پسند تھیں اور اللہ نے مجھے پہلی اولاد ہی بیٹی دی۔۔۔ اس کے بعد ہمیں کوئی اولاد نہیں ہوئی اس لیے تم جیسے جیسے بڑی ہوتی گئیں ہمارے جینے کی وجہ بن گئی۔۔۔ اب تمہاری شادی کا سوچا تو ایسا لگ رہا ہے جیسے میں اپنے سینے سے اپنے ہی ہاتھوں سے اپنا دل الگ کر رہا ہوں۔۔۔ وہ دکھی سے مسکرائے اور عرش کی طرف دیکھا۔۔۔۔
ارے میری بچی رو کیوں رہی ہو۔۔۔ یہ رسم دنیا ہے ہر بیٹی کو اپنے ماں باپ کا گھر چھوڑ کر جانا پڑتا ہے۔۔۔۔
انہوں نے عرش کو گلے لگایا جو ان کی باتیں سن کر رونا شروع ہوگئی تھی ۔۔۔۔
بس اللّٰہ تمہیں ہمیشہ خوش رکھے میری جان ۔۔ وزیر صاحب نے اس کے ماتھے پر بوسہ دے کر دعا دی۔۔۔۔
_____________ ______________
پتا نہیں ان کی دعا ابھی قبول ہوئی تھی یا اللّٰہ نے اس دعا کا اجر انہیں آخرت میں دنے کے لیے رکھ لیا تھا۔۔۔۔۔۔
________________ ________________
To be continued 😇
Duaon me yaad rakhega❤️
Stay home Stay Save
🔹Comment & Tell your Favorite Character ❣️
👇 Follow on Instagram
@arsh_writes11
beautifull yrr m tu bss apko yh kahn gi ke humare major ejaz ko na mariyega plzz hr novel m yhi hta h ap kxh alg krn nw plzzz but nice yrr jldi se 7 bhi dn ap
ReplyDeleteap kisi ko nw maroyega lkn common charector major ejaz ko tu blkl nhi plzz
Deleteor ap nw daily epi publish kiya krn bcz mujhsai w8 nhi horha
ReplyDeleteIt's just amazing ❤️❤️
ReplyDelete