وطنِ عشق
آخری قسط
ایک سال بعد:
آپ کو پتا ہے اعجاز آج معید اور رجا کا نکاح تھا۔۔۔۔ دونوں نکاح کرنے کے لئے راضی نہیں تھے لیکن میں جانتی ہوں دونوں ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں۔۔۔ کوئی راضی نہیں تھا اس خوشی کو منانے کے لیے ہوتے بھی کیوں ہمیں خوشی راس ہی نہیں ہے۔۔۔ جب سے آپ گئے ہیں سب کچھ بدل گیا ہے ہماری خوشیاں بھی آپ اپنے ساتھ لے گئے ہیں۔۔۔ معید بہت سنجیدہ رہنے لگا ہے ہر وقت کا مذاق رجا سی لڑائی ایسا لگتا ہے یہ سب کسی زمانے کی بات ہے۔۔۔شیری کو دیکھا ہے اپنی عمر سے بڑا لگنے لگا ہے۔۔۔ آنٹی وہ تو پہلے بھی کچھ نہیں بتاتی تھی تو اب کیا بتائیں گی پر انہیں دیکھ کر لگتا ہے کہ وہ اندر سے پوری ٹوٹ چکی ہیں۔۔۔ میرے امی پاپا وہ تو میری حالت دیکھ کر روتے رہتے ہیں میں بھی بس ان ہی کے لیے جی رہی ہوں۔۔۔۔ اور رجا وہ بیچاری تو چپ چپ رہنے لگی ہے۔۔۔۔ یہ سب آپ کی وجہ سے ہوا ہے۔۔۔ اس سب کے ذمہ دار صرف اور صرف آپ ہیں اعجاز صرف آپ۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ لکھتے ہوئے دو موتی اس کی آنکھوں سے ٹوٹ کر گرے اور پھر وہ اپنے ماضی میں کھوتی چلی گئی۔۔۔
_________________ ____________
عرش اوپن دا ڈور پلیز اس طرح کمرے میں بند ہونے سے کچھ نہیں ہوگا۔۔۔۔ رجا نے عرش کے کمرے کے باہر کھڑے ہوکر کہا۔۔ اس نے مایوں کے فنکشن سے آتے ہی اپنے آپ کو کمرے میں بند کرلیا تھا کسی کی نہیں سن رہی تھی۔۔۔۔
ہاں بیٹا رجا صحیح بول رہی ہے دیکھو اس طرح کرنے سے تو تمہارے ماما پاپا بھی پریشان ہو رہے ہیں بشری بیگم نے بولتے ہوئے گردن موڑ کر نصرت بیگم کو دیکھا جو رو رہی تھیں اور وزیر صاحب انہیں تسّلی دے رہے تھے۔۔۔وہ بھی عرش کی حالت کے پیشِ نظر ان کے ساتھ ہی گھر آگئی تھیں۔۔۔۔
مجھے اکیلا چھوڑ دیجیئے لیومی پلیز لیومی۔۔۔۔ اس نے روتے ہوئے کہا۔۔۔ بار بار وہ اعجاز کو کال کر رہی تھی جو لگ کر ہی نہیں دے رہی تھی مسلسل فون سوئج اوف جارہا تھا۔۔۔۔۔
پلیز کال اٹھائیں اعجاز پلیز اٹھائیں پک اَپ دا کال اعجاز ۔۔۔۔۔۔۔ وہ ایک منٹ کے لیے بھی اس کو کال ملاتے ہوئے بیٹھی نہیں تھی مسلسل ایک جگہ سے دوسری طرف چکر کاٹ رہی تھی۔۔۔۔۔
اٹھالیں کال پلیز۔۔۔ اس نے لاسٹ ٹائم ٹرائے کیا۔۔۔
دا نمبر یو ہیو ڈائل از پاورڈ اوف۔۔۔۔ پھر سے فون کے اندر سے لڑکی کی آواز سنائی دی۔۔۔۔۔
آاااااااااا ۔۔۔۔۔۔ اس نے غصے میں آکر موبائل دیوار پر دے مارا اور روتے ہوئے بیڈ کے ساتھ ٹیک لگا کر نیچے بیٹھتی چلی گئی۔۔۔۔۔۔
_______________ _____________
سر ویٹ سر وہ گولی چلا دے گا ڈونٹ گو آئ سیڈ ڈونٹ گو۔۔۔۔ معید چلایا۔۔۔
شٹ اپ معید آئ ایم یور سینیٹر نوٹ یو سو فوکس اون یور ڈیوٹی۔۔۔ وہ کہتے ہی آگے بڑھ تھا کہ۔۔۔
ٹھاہ ٹھاہ۔۔۔ دو گولیاں ایک ساتھ چلیں۔۔۔۔
ایک گولی معید نے دشمن کے سپاہی کے ہاتھ پر ماری تھی جب وہ اعجاز کا نشانہ باندھ رہا تھا۔۔۔ پر معید کے گولی چلانے سے اس کا نشانہ چُوک گیا اور گولی اعجاز کے سر پر لگنے کے بجائے سینے پر لگی۔۔۔ اعجاز جو بچی کو بجانے کے لیے بھاگ رہا تھا گولی لگنے سے اپنا توازن برقرار نہ رکھ سکا اور زمین پر زور سے منہ کے بل گِرا۔۔۔۔۔ یہ دو گولیاں اتنی جلدی چلا، یہ سب اتنی جلدی ہوا کہ کسی کو سمجھ ہی نہیں رہا تھا ہوا کیا ہے۔۔۔۔
سر۔۔۔۔ اعجاز کے گِرتے ہی سب پہلے ہوش معید کو آیا اور وہ بھاگتا ہوا اس کی طرف دوڑا۔۔۔۔۔
معید گو اینڈ سیف دی گرل (save the girl) ۔۔۔۔۔ اس نے معید کے نیچے بیٹھنے سے پہلے بولا۔۔۔۔۔ اس کو ابھی بھی اپنے وطن کے لوگوں کی فکر تھی۔۔۔
سر شی اِز فائن۔۔۔ آپ آپ ٹھیک ہیں سر آپ اٹھے ہم ہاسپٹل چلتے ہیں۔۔۔ اس کو سمجھ نہیں آرہا تھا وہ کیا کرے اعجاز کا خون پانی کی طرح بہہ رہا تھا۔۔۔۔۔
معید ایک بہادر سمجھ دار فوجی اور مضبوط اعصاب کا مالک تھا۔۔۔ پر اس وقت بوکھلا گیا تھا کیونکہ یہاں بات اس کے جان سے پیارے سر کے اوپر آگئ تھی جس نے ہمیشہ اس کو بڑے بھائی کی طرح گائیڈ کیا تھا۔۔۔۔۔
ڈون۔۔ ڈونٹ وری معید می میں ٹھیک ہوں۔۔۔
اعجاز کا بولنے میں سانس اُکھڑ رہا تھا
تت۔۔تم بس ایک وعد۔۔۔۔ وعدہ کرو کہ مجھے کچھ بھ۔۔ بھی ہوگیا تو تم سب ک۔۔ کا خیال رکھنا۔۔۔۔ اور عرش کی آرم۔۔۔ آرمی جوائن کر۔۔ کرنے میں مدد کرنا اور۔۔۔ اور آج کے دن کے لیے اس سے سسسس سوری کر لینا۔۔۔۔۔ یہ بولتے ہی اس کی آنکھیں بند ہوگئی۔۔۔۔
سر۔۔۔۔۔ معید اس کا ہاتھ پکڑ کر حلق کے بل دھاڑا تھا۔۔۔۔۔
یہ خاکی وردی والے
وطن کی خاطر
جان بھی اپنی لٹا آتے ہیں
آخری قطرہ بھی خون کا
راہِ حق میں بہا آتے ہیں
یہ خاکی وردی والے
وہ دیکھو جو لاڈوں پلا ہے
وطن کی خاطر لڑتے لڑتے
پل میں دنیا چھوڑ چلا ہے
دیکھو تو کیا بات ہے اس کی
یونہی وطن کی شان بڑھاتے ہیں
کبھی ٹھنڈ میں خون جماتے ہیں
تپتے سورج تلے یہ سب
خون پسینہ بہاتے ہیں
جسم کو اپنے یہ جلاتے ہیں
یہ خاکی وردی والے
ہاں یہ خاکی وردی والے
__________________ _____________
بیل بجی دروازہ کھولا اور کچھ فوجی ایک باکس لے کر اندر داخل ہوئے آرام سے باکس کو زمین پر رکھ کر سائٹ پر کھڑے ہو گئے۔۔۔۔ اور معید چلتا ہوا بشریٰ بیگم کے پاس آ کر کندھے پر ہاتھ رکھ کر کھڑا ہوگیا۔۔۔۔۔
معید دیکھا تم نے اس نے آج آنے کا وعدہ کیا تھا اور آ بھی گیا پر اس طرح آئے گا یہ تو سوچا بھی نہیں تھا۔۔۔۔۔ اس نے ایک پھول جیسی بچی کے خواب توڑے ہیں اچھا نہیں کیا اس نے۔۔۔۔ وہ یہ سب کہتے ہوئے رو نہیں رہی تھی ان کا صبر کمال کا تھا آخر کو ایک شہید فوجی کی بیوی تھیں اور اب ایک شہید فوجی کی ماں بھی بن گئیں تھی۔۔۔۔
_________________ ___________
ان لوگوں کو فون کرکے رات میں ہی اطلاع دے دی گئی تھی کہ ان کا بیٹا میجر اعجاز احمد اپنے وطن کے لیے لڑتے لڑتے شہید ہوگیا تھا۔۔۔ اس نے اپنے وطن کا قرض پورا کیا تھا اپنے خون کا اخری قطرہ اپنے وطن پر ہی قربان کر کے اپنے وطن سے عشق کا یقین دلایا تھا۔۔۔۔۔۔
شہید کی جو موت ہے وہ قوم کی حیات ہے
لہو جو ہے شہید کا وہ قوم کی زکوٰۃ ہے۔۔
____________________ ___________
عرش بھائی آ گئے ہیں۔۔۔۔۔ رجا نے عرش کو ہلا کر کہا۔۔۔۔۔
ہیں کہاں ہیں کہاں ہیں وہ۔۔۔ دیکھو میں نے کہا تھا نا آئیں گے وہ تم لوگ فضول میں بول رہے تھے چھوڑ گئے ہیں۔۔ وہ کھڑی ہو کر پورے صحن میں آنکھیں گھما رہی تھی۔۔۔۔
وہ رہے عرش۔۔۔۔ رجا نے باکس کی طرف اشارہ کیا۔۔۔
اچھا اچھا وہ۔۔۔۔۔ عرش بھاگتی ہوئی گئ۔۔
ارے اعجاز یہ کیا طریقہ ہے اٹھیں آج گھوڑے پر بارات لے کر آنی ہے اس طرح باکس میں تھوڑی۔۔۔ وہ یہ کہتے ہی ذور سے ہنسی اس طرح کرتے ہوئے وہ اپنے حواسوں میں نہیں لگ رہی تھی۔۔۔۔
عرش پاگل ہوگئی ہو ہوش میں آؤ نہیں رہا ہے وہ اب ہمارے بیچ شہید ہوگیا ہے وہ چھوڑ گیا ہے ہم سب کو۔۔۔ نصرت بیگم نے عرش کو جھنجھوڑ ڈالا۔۔۔۔
نہیں نہیں ایسا ہو ہی نہیں سکتا۔۔۔ پاپا دیکھے نا امی کیا بول رہی ہیں ان سے بولے چپ ہو جائیں یہ جھوٹ بول رہی ہیں نا۔۔۔۔ وہ اٹھ کر وزیر صاحب کے پاس آکر پوچھنے لگی اُسے لگ رہا تھا کہ ابھی پاپا بولے گے کہ ہاں بیٹا یہ سب جھوٹ ہے وہ ابھی اٹھ جائے گا۔۔۔۔
نہیں میری جان تمہاری امی سچ کہے رہی ہیں وہ شہید ہوگیا ہے۔۔۔ انہوں نے اس کے سر پر ہاتھ رکھا۔۔۔
نہیں نہیں جھوٹ ہے یہ سب کچھ جھوٹ ہے۔۔۔۔ اعجاز آپ اٹھیں بس بہت ہوگیا بتادیں آپ ان سب کو کہ یہ سب جھوٹے ہیں۔۔۔۔۔۔
اٹھیں دیکھیں میں نے آپ کے نام کی مہندی لگائی ہے کتنا اچھا رنگ آیا ہے نا اور یہ دیکھیں میں نے آپ کا نام بھی لکھوایا ہے اچھا لگ رہا ہے نا۔۔۔؟؟؟
وہ بار بار اپنا ہاتھ اس کے سامنے کر رہی تھی۔۔۔۔
افففففف بھئ اب اٹھ بھی جائیں مجھے پارلر بھی جانا ہے دیر ہو رہی ہے فضول کا مذاق کر رہے ہیں آپ۔۔ وہ باکس میں منہ کے اوپر لگے شیشے پر ہاتھ پھیر رہی تھی۔۔۔۔
آنٹی آنٹی آپ بولے نا وہ آپ کی بات سنیں گے۔۔۔ وہ اب اٹھ کر بشریٰ بیگم کے پاس آئی تھی۔۔۔
نہیں بیٹا وہ اب کسی کی نہیں سنے گا۔۔۔۔
نہیں جھوٹ ہے یہ ۔۔۔۔ شیری معید تم دونوں بولوں معید میں نے تمہارے ساتھ بلکل صحیح سلامت بھیجا تھا۔۔۔ جب تم یہاں کھڑے ہو تو وہ وہاں کیوں ہیں انہیں بھی ادھر ہونا چاہیے۔۔۔۔ وہ معید کا کولر پکڑ کر ہلا رہی تھی۔۔۔۔
رجا پلیز سنبھالو بھابھی کو اس نے رجا کو آواز دی۔۔ اس کی خود کی حالت غیر ہو رہی تھی اس کے جان سے پیارے سر نہیں رہے اپنی شادی والے دن شہید ہوگئے۔۔۔۔
رجا بھی اپنی جان سے پیاری دوست کی شکل میں بہن کی حالت کو دیکھ کر رو رہی تھی آخر کیا ہوگیا تھا اس کے ساتھ کل ہی تو اس نے اعجاز کے نام کی مہندی لگائی تھی ابھی تو مہندی کا رنگ اترا بھی نہیں تھا اور اس کا شوہر اس کو چھوڑ چلا تھا آخر کیوں کیا غلطی تھی اس کی صرف یہ کہ اس نے بچپن سے ایک فوجی کی بیوی بننے کی خواہش کی تھی تو اس کی اتنی بڑی سزا کہ شادی ہونے سے پہلے ہی وہ بیوا ہو گئ تھی۔۔۔۔۔
اعجاز آپ ایسا نہیں کر سکتے نہیں چھوڑ سکتے آپ آپ نے ابھی اپنے کیے سارے وعدے پورے کرنے ہیں اٹھائیں۔۔۔۔ وہ آخری بار بول رہی تھی رو تھی اب وہ
اس کو بھی یقین آگیا تھا کہ نہیں رہا اعجاز۔۔۔۔ اس کا اور اعجاز کا ساتھ بس اتنا ہی تھا۔۔۔۔
تھک گئی تھی وہ اٹھا اٹھا کر جب نہیں اٹھا تو یقین کرلیا اس نے اپنی قسمت کے فیصلے پر۔۔۔
کیسی قسمت تھی بیچاری کی شادی والے دن شوہر بارات لانے کے بجاۓ خود کفن میں لیپٹ کر آیا تھا۔۔۔
مجھے معاف کرنا تمہاری ڈولی اٹھنی تھی مگر اب میرا جنازہ اٹھے گا
اس نے صحیح کہا تھا نہ تو اس نے خود سے عرش کو چھوڑا تھا نہ اپنے وطن کو بلکہ خود شہید ہوگیا تھا۔۔۔۔۔
امی میرے ساتھ ہی کیوں کیوں میرے ساتھ ایسا ہوا بارات والے دن ہی میرا شوہر مجھے چھوڑ گیا ابھی تو میں نے صحیح سے خوشیاں محسوس بھی نہیں کی امی کیا میں اتنی گنہگار بندی ہوں کہ اللّٰہ نے مجھ سے خوشیاں چھین لی کہ میں اس قابل نہیں کہ میری بچپن کی خواہش پوری ہو کیا ایک فوجی کی بیوی بننا اتنا مشکل ہے۔۔۔۔؟؟؟؟؟ جب اس کو یقین آگیا تو وہ چیخ چیخ کر رونا شروع ہوگئی تھی ۔۔۔۔۔ نصرت بیگم اور رجا کے لیے عرش کو سنبھالنا مشکل ہو گیا تھا۔۔۔۔۔۔
وہ جو تنکا تنکا اڑ گئیں
کوئی درد و غم کی ہوائیں تھیں
میری بندگی میں تھی کیا کمی
میرے واسطے جو سزائیں تھیں
میری زندگی میں جو دکھ لکھے
میرے مولا کیا ہو خطائیں تھیں۔۔
سب کو اس کی قسمت پر رونا آرہا تھا اتنی سی عمر میں اتنا بڑا دکھ۔۔۔۔۔
_______________ ____________
حال:
ایک تیز ہوا کا جھونکا آ کر عرش سے ٹکرایا اور وہ ماضی سے حال میں واپس آئی اپنی آنکھیں صاف کی اور اداسی سے مسکرا کر پین کو ڈائری میں رکھ کر اس کو سائٹ پر رکھا۔۔۔ اٹھ کر کھڑکی بند کی اور چلتی ہوئی بیڈ پر آکر لیٹ گئی۔۔۔۔۔
ایک سال ہوگیا تھا اعجاز کو ان لوگوں سے بچھڑے سب نے قسمت کے فیصلے پر صبر کرلیا تھا۔۔۔۔ عرش نے بھی صبر کرلیا تھا اور اب وہ اللّٰہ سے آخرت میں اعجاز کا ساتھ مانگتی تھی جہاں وہ لوگ ہمیشہ رہنے والے تھی۔۔۔ اس نے اور شیری نے آرمی جوائن کرلی تھی معید اور رجا کا نکاح ہوگیا تھا۔۔۔۔۔
لیٹ نے کے بعد وہ اعجاز کا دیا گیا خط کھول کر پڑھنے لگی یہ جو اگلے دن ہی معید نے اس کو دیا تھا ۔۔۔ اس کی اب روز دات کی روٹین تھی وہ پہلے دن بھر کی ساری باتیں اپنی ڈائری میں لکھتی تھی اس کو لگتا کہ اعجاز آکر اس کی ڈائری پڑھتا ہے۔۔۔ اور سونے سے پہلے اس کا خط زور پڑھتی تھی حفظ ہوگیا اس کو وہ بغیر دیکھے بھی سنا سکتی تھی لیکن جب تک وہ رات میں نہیں پڑھ لے اس کو نیند نہیں آتی تھی۔۔۔۔
میری پیاری عرش:
اسلام علیکم میں معافی چاہتا ہوں کہ میں تم سے کیا ہر وعدہ پورا نہیں کر سکا میرا اور تمہارا ساتھ بس اتنا ہی تھا میں نہیں جانتا مجھے تم سے محبت کب ہوئی بس اتنا بتادوں کہ میری زندگی میں میرے وطن کے بعد میرے لیے اگر کوئی ضروری ہوگیا تھا تو وہ صرف تم تھی تم میری زندگی میں آنے والی پہلی اور آخری لڑکی تھی۔۔۔۔۔ میں جانتا ہوں تم بہت اداس ہوگی اس کے لیے معافی چاہتا ہوں۔۔۔ اور ہاں پلیز اس دکھ میں تم خود کو ختم مت کرنا زندگی میں آگے بڑھنا اپنی دوسری خواہش پوری کرنا آرمی جوائن کرنا میں معید سے پہلے کہہ چکا ہوں وہ ساری دیکھ بھال کر لے گا۔۔۔۔
جدائی کے دکھ کو اگرجہ ہنس کے سہنا ہے
اسے رسمی ہی سہی مگر خدا حافظ تو کہنا ہے۔۔۔
اللّٰہ حافظ۔۔
فقط،
صرف اور صرف تمہارا اعجاز۔۔۔۔
ہر روز وہ یہ خط پڑھ کر پہلے دن کی طرح روتی تھی آخر اور کتنا صبر کرتی دن بھر لوگوں کو دیکھانے کے لیے مصنوعی مسکراہٹ سجا کر رکھتی تھی پر رات میں یہ خط پر کر اس کی ہمت جواب دے جاتی تھی۔۔۔۔۔
ٹوٹ کے گرتے رہے پلکوں سے آنسو رات بھر
دل کے سارے کا سارا تارے آنکھوں نے رات بھر
کاغذ تیرے نہیں لکھتے کچھ راز محبت کے
پل بھر میں بکھر جاتے ہیں الفاظ محبت کے
اسے ٹوٹ کر چاہا تو ہم خود ہی بکھر گئے
ایسے بھی بدلتے ہیں انداز محبت کے
اسے کہو کہ پھر سے لوٹ آئے میرے پاس
کہ مجھے پھر سے سجانے ہیں کچھ خواب محبت کے۔۔۔۔۔
________________ ___________
The End......❤️
I know ap log kch naraz hngy is end pr qk hume hr novel ki happy ending psnd hai novel ek fantasy hai yeh ek alag hi dunyea hai jo hm insano ne banai hai isme hr novel me hero heroin k darmeyian kch prblms hoti hai phr sb thk hojata hai or happy end hojata hai pr real life me aisa kch nhi hai....
Meri bs thori si khosish yeh thi k main is novel k zariyea ap logo thori reality batao bht si larkiyean Arsh jesi hngi jinke sth real me aisa hua hoga kitna dukh hua hoga unhe uska andaza hm nhi kr skhte kch foji aise hngy jin hone apne bachon ko aj tk dekha nhi hoga kch foji aise kch hngy jo apne maa baap k inteqal pr nhi gae hngy sirf kis liye humare liye.... 😣
Or hm apni itni haseen zindagi me inke dukh bhool bhetw hain in logo kliye dua kara kare Allah inko or himmat den (Ameen)...
Allah k faslo karam se mera pehla novel khtm hua bht shukriyea ap sb ka jinhone mujhe pehle din se support kia......
In Sha Allah bht jld milte Hain ek bht axhi story k sth duaon me yaad Rakhega Allah hafiz
Do commets💬
Follow me on Instagram
@arsh_writes11
Share with Friends 😇
I like ur novel but ending kxh udaas si thi m apko aj btaoo ke aj yh prhtr oe meri ankhon m ansoo agaye allah sbko sabr de in halaat m
ReplyDeleteINSHALLAH
😔☹️☹️☹️☹️☹️☹️☹️☹️☹️☹️☹️😭
Hawwww dear em so sorry lkn ye reality ha ese kitni larkiyoun k ghr ujar jate Hain 😐😔
Delete❤❤❤❤
ReplyDeleteNice😇
ReplyDeleteGreat 😘
ReplyDeleteGorgeous
ReplyDeleteAwsome 👍👍👍💕
ReplyDelete